تین دن میں فرشتے خود گھر کے دروازے پر رزق رکھ کر جائیں گے۔

کیا آپ نے کبھی دعا کے بارے میں سوچاہے کہ دعا کا مفہوم کیا ہے یادرہے کہ دعا کا معنی ہیں مانگنا یعنی اللہ سے مانگنے کو دعاکہتے ہیں اور دعاللہ کی اپنے بندے کے لئے ایسی نعمت اور ایسی عبادت ہے

جس کے لئے کوئی وقت مقرر نہیں بلکہ بندہ جس وقت چاہے اللہ کی ذات سے دعا مانگ لے یادرہے کہ دعا صرف پریشانی اور مشکل وقت کے لئے نہیں ہے کہ جب بندے پر پریشانی اور مشکل وقت آئے تو دعامانگے بلکہ اللہ کے جو نیک بندے ہوتے ہیں وہ اللہ کو راضی کرنے کے لئے بھی دعائیں مانگتے ہیں

کیونکہ اللہ کی ذات دعاکرنے والوں سے خوش ہوتی ہے لیکن اگر عام مشاہدہ کیاجائے تو آج کل جو دعامانگنے میں جو جلدی کی جاتی ہے وہ کسی سے مخفی نہیں حالانکہ محمد ﷺ کی واضح حدیث ہے کہ وہ دعا قبول نہیں ہوتی جس دعا میں جلد بازی کی جائے اس لئے چاہئے کہ اللہ سے جب بھی دعا مانگی جائے تو بڑے سکون سے اور پورے یقین کے ساتھ مانگی جائے روایات میں آتا ہے کہ حضرت عبداللہ بن ابو عبید ؓ نے ایک مرتبہ حضور اقدس ﷺ سے اپنی حفاظت کے لئے اپنی پریشانیوں اور رزق کی تنگدستی کے لئے سوال کیا تو آپ ﷺ نے ان کو تین مختصر سورتیں بتائیں یہ سورتیں کونسی ہیں ۔یاد رہے کہ وظیفہ کا فائدہ اسی وقت ہوتا ہے

کہ جب اس کے معنی و مفہوم کو سمجھ کر کیاجائے اس لئے کوشش کریں کہ وظیفے کا مکمل طریقہ پوری طرح سے سمجھاکریں۔ویسے تو دعا کاکوئی خاص وقت مقرر نہیں ہے بندہ جب بھی دعامانگے جو بھی دعامانگے اللہ پاک اس کی دعا کو سنتا ہے اور قبول فرماتا ہے لیکن کچھ وقت اور کچھ طریقے اللہ کے نبی نے ایسے بتائے ہیں کہ جن میں دعاجلد قبول ہوتی ہے اس لئے چاہئے کہ اللہ تعالیٰ سے اپنی دعاؤں کو جلد قبول کرانے کے لئے ان اوقات میں اور بتلائے گئے کلمات کے ساتھ دعا مانگی جائے ۔ لیلۃ القدر :چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول ہے

کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے اس وقت فرمایا جب انہوں نے کہا: “مجھے بتلائیں کہ اگر مجھے کسی رات کے بارے میں علم ہو جائے کہ وہ لیلۃ القدر کی ہی رات ہے ، تو اس میں میں کیا کہوں؟” تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم کہو: (اَللَّهُمَّ إِنَّكَ عَفُوٌّ تُحِبُّ الْعَفْوَ فَاعْفُ عَنِّيْ) یا اللہ! بیشک تو ہی معاف کرنے والا ہے، اور معافی پسند بھی کرتا ہے، لہذا مجھے معاف کر دے۔ رات کے آخری حصے میں :یعنی سحری کے وقت دعا کرنا۔

اس وقت اللہ تعالی آسمان دنیا تک نزول فرماتا ہے، یہ اللہ سبحانہ وتعالی کا اپنے بندوں پر فضل و کرم ہےکہ انکی ضروریات اور تکالیف دور کرنے کیلئے نزول فرماتا ہے، اور صدا لگاتا ہے: “کون ہے جو مجھے پکارے تو میں اسکی دعا قبول کروں؟ کون ہے جو مجھ سے مانگے تو میں اسے عطا کروں؟ کون ہے جو مجھے سے اپنے گ۔ناہوں کی بخشش مانگے، تو اسے بخش دوں” فرض نمازوں کے بعد:ابو امامہ رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے کہ: “رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا گیا: “کونسی دعا زیادہ قبول ہوتی ہے؟

” آپ نے فرمایا: (رات کے آخری حصے میں، اور فرض نمازوں کے آخر میں)” اس حدیث کو البانی نے “صحیح ترمذی” میں حسن قرار دیا ہے۔یہاں اس بات میں مختلف آراء ہیں کہ عربی الفاظ”دبر الصلوات المكتوبات”سے کیا مراد ہے؟ سلام سے پہلے یا بعد میں؟ اس بارے میں شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ اور ان کے شاگرد ابن قیم رحمہ اللہ کہتے ہیں: یہ سلام سے پہلے ہے، چنانچہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا کہنا ہے کہ: “ہر چیز کی “دُبُر” اسی چیز کا حصہ ہوتی ہے، جیسے “دبر الحیوان” یعنی حیوان کا پچھلا حصہ” شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں۔

جن دعاؤں کا تذکرہ “دبر الصلاۃ” کی قید کے ساتھ آیا ہے، ان سب کا وقت سلام سے پہلے ہے، اور جن اذکار کا تذکرہ ” دبر الصلاۃ ” کی قید کے ساتھ آیا ہے، تو یہ سب سلام کے بعد کے اذکار ہیں؛ کیونکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:چنانچہ جب تم نماز مکمل کر لو؛ تو اللہ کا ذکر اٹھتے بیٹھتے، اور پہلو کے بل کرو۔ اذان اور اقامت کے درمیان:نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے صحیح ثابت ہے

کہ آپ نے فرمایا: (اذان اور اقامت کے درمیان دعا رد نہیں ہوتی۔ فرض نمازوں کی اذان اور میدان معرکہ میں گھمسان کی جنگ کے وقت:چنانچہ سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (دو چیزیں کبھی رد نہیں ہوتیں، یا بہت ہی کم رد ہوتی ہیں، اذان کے وقت، اور میدان کار زار کے وقت جب گھمسان کی جنگ جاری ہو)۔بارش کے وقت:چنانچہ سہل بن سعد رضی اللہ عنہ کی روایت میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول ہے

کہ آپ نے فرمایا: (دو دعائیں رد نہیں ہوتیں: اذان کے وقت کی دعا اور بارش کے وقت کی دعا) رات کے کسی حصے میں دعاآپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: (رات کے وقت ایک ایسی گھڑی ہے

جس میں کوئی بھی مسلمان دنیاوی اور اخروی خیر مانگے تو اسے وہ چیز دے دی جاتی ہے، یہ گھڑی ہر رات آتی ہے)۔ جمعہ کے دن قبولیت کی گھڑی:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جمعہ کے دن کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا: (اس دن میں ایک ایسی گھڑی ہے جس میں کوئی بھی مسلمان اللہ تعالی سے کھڑے ہو کر دعا مانگے تو اللہ تعالی اسے وہ چیز عطا فرماتا ہے) اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس گھڑی کے انتہائی مختصر ہونے کا اشارہ بھی فرمایا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *